Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

غفران احمر کا شمار ملک کے بڑے سوداگروں میں ہوتا تھا اس کا مال تجارت پوری دنیا میں امپورٹ ہوتا تھا اس کی دوستیاں بھی کاروبار کی طرح وسیع تھیں۔ ان دوستیوں کو مضبوط کرنے کے اس کے اپنے ہی طریقے تھے جس میں صنف مخالف کا استعمال سر فہرست تھا۔ ماہ رخ کو وہ اپنے دوستوں اور بزنس کے سلسلے میں ملنے والے لوگوں سے بھی ملوانے لگا تھا اس کا نوخیز حسن و کم عمری غفران احمر کے لیے سود مند ثابت ہورہی تھی مشکل و ناممکن کام ماہ رخ کی بدولت سہل ہوگئے تھے ۔
وہ اس کے لیے سونے کی چڑیا تھی جس سے وہ بہت پیار کا اظہار کرتا تھا اس کی خوب صورتی کے گن گاتا پھر ضرورتی تو نہیں ہے کسی کومقید کرنے کے لیے رسی اور زنجیر کا ہی سہارا لیا جائے کچھ قیدی ایسے بھی ہوتے ہیں جو مکروفریب بھرے پیار اور سازشی محبت کی زنجیر سے جکڑے جاتے ہیں وہ بھی جکڑی گئی تھی ایسی ہی نادیدہ زنجیروں سے جن سے چاہ کر بھی رہائی ممکن نہ تھی آج صبح ہی وہ غفران احمر کے ایک دوست کے ساتھ ایک ہفتہ گزار کر آئی تھی اور بیڈ روم میں غفران احمر تکیوں کے سہارے نیم دراز قہوہ پیتے ہوئے خوش گوار موڈ میں پوچھ رہا تھا۔


 
”مرسلین غیاث بہت تعریفیں کر رہا تھا تمہاری۔ بہت خوشی ہوئی ہے اس کو تمہارے ساتھ وقت گزار کر، بہت اصرار کر رہا تھا تم کو اپنے یہاں کچھ عرصہ مہمان بنانے کے لیے مگر میں نے صاف انکار کردیا “وہ ڈریسنگ روم کے سامنے بیٹھے اپنی سنہری بالوں میں برش کر رہی تھی ۔ اس کے چہرے پر دھیمی مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی غفران آئینے میں نظر آتے اس کے عکس کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔
 
”مرسلین کے دل میں تم نے یہ بات اچھی طرح بٹھادی ہے نا …قالینوں کا سارا لین دین وہ اب ہم سے ہی کرے گا ؟“
”یہ بات آپ نے اس سے کیوں نہیں پوچھی ؟“
”میں اس سے کیوں پوچھوں گا ؟“اس کے سرد لہجے میں ناگواری ابھری۔ 
”اسی ڈیل کو فائنل کرنے کے لیے میں نے تم کو اس کے ساتھ بھیجا تھا۔ محض سیر سپاٹے کے لیے نہیں بھیجا تھا۔
دو سال سے اس نے ہم سے خریداری ختم کر رکھی ہے جس سے نقصان ہورہا ہے “
”اوہ ڈارلنگ بدگمانی کی باتیں کیوں کرتے ہو کیا آپ کو مجھ پر اتنا بھروسہ نہیں ہے کہ میں آپ کا کام کراسکتی ہوں یا نہیں ؟“وہ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے ادائے دلربائی سے گویا ہوئی ۔ غفران احمر نے قہوہ کی پیالی ٹیبل پر رکھی اور اس کے ہاتھ تھام کر ترنگ میں بولا۔ 
”تمہاری ان اداؤں کا میں دیوانہ ہوں میری رانی ! میں تمہیں دل سے چاہتا ہوں جتنی محبت تم سے ہے اتنی محبت کسی سے نہیں کرتا محل میں جاکر ان تمام عورتوں سے پوچھو، غفران احمر نے کسی کے ساتھ بھی اتنا وقت نہیں گزارا جتنا میں تمہارے ساتھ گزارتا ہوں “وہ اس کے مخروطی ہاتھوں کو چومتے ہوئے کہہ رہا تھا ماہ رخ بے حس و حرکت بیٹھی ہوئی تھی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی لیکن آنکھوں میں نفرت و کراہیت بھری ہوئی تھی ۔
وہ سوچ رہی تھی زندگی کس ڈگر پر چل پڑی ہے کہ ایک عورت سے اس کو فاحشہ بنادیا گیا وہ کیا بننے نکلی تھی اور کیا بن گئی ۔ 
”مجھے ایک عرصہ بعد ایک دوست سے ملنے شہر سے باہر جانا ہے وہاں قیام کچھ طویل بھی ہوسکتا ہے جب تک تم یہاں خوب آرام کرو، دلربا تمہارا خاص خیال رکھے گی وہاں سے واپسی پر تم کو ایک اہم کام کے لیے ایک دوست کے پاس بھیجوں گا “غفران احمر اسے اپنی پلاننگ سے آگاہ کر رہا تھا جبکہ وہ اپنی سوچوں میں مگن تھی۔
 
###
فیاض صاحب بے حد نرم مزاج اور درگزر کرنے کے عادی تھے لیکن عائزہ کو وہ معاف نہ کرسکے رات جب گھر کے سب لوگ فاخر کے گھر رسم حنا کے لیے گئے ہوئے تھے پری عشاء کی نماز پڑھنے میں مشغول تھی عائزہ دبے قدموں سے ان کے کمرے کی طرف آئی تھی ۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا وہ کانپتے قدموں اور دھڑکتے دل کے ساتھ اندر داخل ہوئی وہاں لائٹ بے حد کم تھی جس کے باعث نیم اندھیرا پھیلا ہوا تھا فیاض صاحب سامنے ہی ایزی چیئر پر براجمان تھے ۔
 
کھلی کھڑکی سے باہر خلاؤں میں ان کی نگاہیں بھٹک رہی تھیں۔ اس کی آہٹ پر وہ چونکے ضرور تھے مگر اسی انداز میں بیٹھے رہے شاید وہ اس کے ہاتھوں و پاؤں میں لگی مہندی کی مہک سے سمجھ گئے تھے چند لمحوں قبل ان کے چہرے پر پھیلا حزن و اضمحلال کرختگی و خفگی میں بدل گیا تھا۔ انہوں نے اس کی طرف دیکھنے کی سعی بھی نہ کی ۔ 
”پاپا…“عائزہ نے روتے ہوئے پکارا۔
 
”جہاں ہو وہیں رک جاؤ، تم نے جرات کیسے کی یہاں آنے کی ؟“اس کی جانب سے رخ موڑتے ہوئے وہ سخت پر جلال لہجے میں بولی۔ 
”پاپا…پاپامجھے معاف کردیں، مجھ سے غلطی ہوئی بہت بڑی بھول ہوگئی پلیز مجھے معاف کردیں “وہ ان سے کچھ فاصلے پر رک گئی تھی اور بے تحاشہ رو رہی تھی ۔ 
”یہاں سے چلی جاؤ عائزہ! میں تمہاری صورت تک نہیں دیکھنا چاہتا “
”فار گاڈ سیک پاپا، ایسا مت کہیں میں بہت نالائق بیٹی ہوں میں نے آپ کا دل دکھایا ہے آپ کے اعتماد کو ریزہ ریزہ کیا ہے آپ کو حق ہے سزا دینے کا آپ جو چاہیں سزا دیں مجھے پاپا، مگر مجھے معاف کردیں آپ کی ناراضی مجھے جینے نہیں دے گی “وہ تیزی سے ان کے قدموں میں بیٹھ کرروتے ہوئے کہہ رہی تھی فیاض سرعت سے دور ہوئے اور بارعب لہجے میں گویا ہوئے ۔
 
”سزا تو تم نے دی ہے مجھے باپ ہونے کی مرتے دم تک اس اذیت کو بھگتوں گا میں، اگر مجھے اپنی دوسری بیٹیوں کے فیوچر کی پروا نہ ہوتی تو میں تمہارا وہ حال کرتا کہ تمہیں گمراہ کن لڑکیوں کے لیے نشان عبرت بنادیتا پھر کوئی لڑکی تمہاری طرح ماں باپ کی عزت کو خاک میں ملانے سے بہتر خود خاک میں مل جانا پسند کرتی “وہ شدید اشتعال میں چیخ رہے تھے کچھ فاصلے پر کھڑی عائزہ زاروقطار روتے ہوئے خوف و صدمہ سے کانپ رہی تھی ان کے چیخنے کی آواز سن کر پری بھی وہاں آگئی تھی اور ہمت کرکے گویا ہوئی ۔
 
”پاپا آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے پلیز …آپ لیٹ جائیں “
”اس کو یہاں سے لے جاؤ پری، اس کی موجودگی مجھے تکلیف دے رہی ہے آگ میں جل رہا ہوں میں …آگ میں …“وہ کسی ٹوٹے ہوئے شہتیر کی طرح بیڈ پر لیٹ گئے ۔ پری نے روتی ہوئی عائزہ کا ہاتھ تھاما اور باپ کو دیکھتے ہوئے وہاں سے نکل آئی ان کے چہرے پر شدید تکلیف تھی وہ عائزہ کو لے کر کمرے میں آئی تو وہ اس سے لپٹ کر رونے لگی۔
 
”عائزہ !چپ ہوجاؤ پلیز اس طرح مت رو “
”پری! پاپا مجھ سے ناراض ہیں اتنے شدید ناراض ہے کہ میری طرف دیکھنا بھی ان کو پسند نہیں ہے ان کو مجھ سے نفرت ہوگئی ہے “
”پاپا بے حد تکلیف میں ہیں تم خود کو سنبھالو میں ان کو جاکر دیکھتی ہوں “وہ اس کو تسلی دے کر باہر آئی تو طغرل اندر چلا آیا اس کو دیکھ کر پوچھنے لگا ۔ 
”خیرت تو ہے نا ؟بہت پریشان نظر آرہی ہو ، کیا ہوا ہے ؟“
”پاپا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے عائزہ ان سے معافی مانگنے گئی تھی وہ بہت غصے میں تھے۔
مجھے ڈر ہے کہیں ان کا بی پی نہ شوٹ کرگیا ہو ، اسٹریس میں ہیں “پری رندھی ہوئی آواز میں اس سے گویا ہوئی تھی ۔ 
”ڈونٹ وری ، میں اسی لیے آنٹی کے ساتھ نہیں گیا تھا میں نے فیل کیا تھا چچا جان ٹینس ہیں۔ تم ڈنر کا بندوبست کرو میں چچا جان کو ریلیکس کرنے کی کوشش کرتا ہوں …اوکے “وہ گہری نظروں سے اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا جہاں معمولی سرخی تھی ۔
آنکھیں بھی قدرے سوجی سوجی شدت گریہ وزاری کاپتا دے رہی تھیں یلو اینڈ پرپل سوٹ میں اس کا حسن خاصا سوگوار تھا۔ 
”تم روئی ہو پارس“و ہ گمبھیر لہجے میں سنجیدگی سے گویا ہوا۔ 
”جی عائزہ کی جدائی کے خیال سے رونا آگیا تھا جس طرح اور جن حالات میں اسکی شادی ہورہی ہے“ وہ کہہ کر چلی گئی تھی ۔ 
بارات آچکی تھی نکاح کا مرحلہ بھی طے ہوچکا تھا گھر کے وسیع و عریض لان کو خوب صورت طریقے سے ڈیکوریٹ کرکے مہمانوں کے لیے تیار کیا گیا تھا جہاں مہمانوں کی گہما گہمی تھی ۔
قہقہے، مسکراہٹیں، رنگ اور خوشبوئیں ہر طرف بکھری ہوئی تھیں۔ عائزہ دلہن بنی اسٹیج پر بیٹھی تھی پر اعتماد اور طنزیہ گفتگو کرنے والی عائزہ اپنی تمام تیزی و طراری بھول بیٹھی تھی۔ اس نے اس خاص دن کے لیے سنہرے سپنے دیکھے تھے ۔ بے حد ارمان تھے دل میں جن کو پورا کرنے کے لیے اس نے گھر کے اصول توڑے تھے ۔ والدین کے بھروسے کو ٹھیس پہنچائی تھی ۔
جن کا انجام وہ بھگت چکی تھی ۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی یا کسی نیکی کا اجر کہ اس کی عزت محفوظ رہی تھی ۔ لیکن وہ باپ کی نگاہوں میں ہمیشہ کے لیے غیر اہم ہوگئی تھی ۔ اور یہ اس کے لیے سب سے بڑا صدمہ تھا۔ جس کی تلافی ممکن ہی نہ رہی تھی ۔ جس کا ازالہ کسی صورت میں ممکن نہ تھا۔ 
جذبات کاد ریا جب چڑھتا ہے تو سماعتیں اپنے دل ہی کی آوازیں سنتی ہیں نگاہیں اپنے مطلوب کے گرد ہی رقصاں رہتی ہیں باقی سب اوجھل ہوجاتا ہے اور جب جذبات کا دریا اترتا ہے تو بصارت لوٹ آتی ہے سماعتیں کام کرنے لگتی ہیں پھر سودوزیاں کا حساب ہوتا ہے کیا پاپا کیا کھویا سمجھ میں آنے لگتا ہے ہاتھ تو اس کے کچھ بھی نہیں آیا تھا البتہ دامن میں ندامتیں، پچھتاوے ، آنسوؤں کے انبار تھے ساتھ بیٹھے مبارکبادیں وصول کرتے فاخر کے لیے بھی اس کے جذبات میں کوئی گرم جوشی نہ تھی وہ گردن جھکائے کسی سانس لیتے مجسمے کی مانند بیٹھی ہوئی تھی ۔
فاخر آف وہایٹ دیدہ زیب شیروانی میں گلے میں ہار ڈالے ڈیسنٹ لگ رہا تھا اس کے چہرے پر امنگیں و مسرتیں تھیں وہ کنکھیوں سے کئی بار عائزہ کو دیکھ چکا تھا اور ہر بار اس کو ارد گرد سے بے خبر بیٹھے دیکھ کر اس کے چہرے کی شادمانی کم ہونے لگتی تھی ۔ اس کی پیشانی پر شکنیں ابھرنے لگی تھیں۔ مسکراتے لب بھینچنے لگے تھے ۔ عادلہ نے گلابی و فیروزنی کنٹراسٹ میں لہنگا سوٹ بنوایا تھا عائزہ کے ساتھ پالر میں تیار ہوئی تھی میچنگ جیولری میں وہ خاصی حسین لگ رہی تھی ۔
شیری اپنی فیملی کے ساتھ وہاں موجود تھا اور وہ کسی پروانے کی مانند ان کے ارد گرد چکرارہی تھی ۔ صباحت بیگم کی آج چھپ ہی نرالی تھی۔ وہ شوخ رنگوں کی لشکارے مارتی ساڑھی میں ملبوس بھاری جیولری اور میک اپ میں اپنی بیٹیوں کی ماں کم بہن زیادہ دکھائی دے رہی تھیں۔ دادی انگوری کلر کے شلوار شوٹ میں سادہ و پروقار انداز میں بیٹھی تھیں۔ فاخرہ بیگم بار بار عائزہ کے پاس جاکر اس کی تعریف کر رہی رہی تھیں۔
اپنے ساتھ آئیں خواتین کو اس سے ملوا رہی تھیں۔ سب نے ہی ان کی جوڑی کو سراہا تھا۔ صباحت نے موقع دیکھتے ہی عائزہ سے سرگوشی میں کہا۔ 
”تم کیا سولہویں صدی کی دلہنوں کی طرح شرمارہی ہو بیٹا، چہرہ اٹھا کر دیکھو اپنی شادی کو انجوائے کرو یہ دن صرف ایک بار آتا ہے زندگی میں کیوں ضائع کر رہی ہو ان حسین لمحوں کو “
”تم کیا کان بھر رہی ہو میری بہو کے صباحت“فاخرہ مسکرا کر ان سے گویا ہوئی تھیں صباحت سیدھی کھڑی ہوکر ہنستے ہوئے بولیں۔
 
”بھابھی جان میری کیا مجال جو آپ کی بہو کے کان بھروں، دراصل میں اس کو سمجھا رہی تھی اس طرح سرجھکا کر بیٹھے کون شرماتا ہے آج کل یہ سب دستور پرانے ہوگئے ہیں۔ “
”ارے نہیں صباحت یہ باتیں تو دل سے مشروط ہوتی ہیں۔ دستور خواہ کتنے بدل جائیں احساسات و جذبات کبھی نہیں بدلتے ہیں “
”آپ تو خاصی روایت پسند ہیں بھابی جان چلیں خوب ہے یہ بھی آپ کے اور عائزہ کے خیالات ملتے جلتے ہیں اچھا ماحول رہے گا گھر کا “وہ کہتی ہوئی سٹیج سے نیچے اتر آئی تھیں۔
ان کی نگاہ کوٹ سوٹ میں ملبوس شیری پر تھیں۔ عادلہ ان کے درمیان میں بیٹھی ہوئی تھی ۔ ان کی نظر میں عادلہ سے بڑھ کر کوئی حسین لڑکی نہیں تھی یہاں پر، لیکن ان کی پیشانی پر بل شیری کی ادھر ادھر بے تاب بھٹکتی نگاہوں نے ڈال دیے تھے ۔ یہ احساس ہی ان جیسی خود پسند عورت کے لیے ناقابل برداشت تھا کہ کسی کے لیے ان کی بیٹی کو رد کیا جائے ۔ 
”بہت بہت مبارک ہوبھابی آپ کی بیٹی کی شادی “وہ وہاں آئیں تو مسز عابدی نے ایک بار پھر مبارک باد دی تھی ۔
 
”تھینکس بھابی صاحبہ، آپ عائزہ سے ملیں ؟“وہ چیئر پر بیٹھتے ہوئے بولیں۔ 
”جی ہاں، ماشاء اللہ بہت خوب صورت کپل ہے میری دعا ہے کہ سدا خوش رہیں بچے“ان کا لہجہ پرخلوص تھا۔ 
”آپ کی دعائیں ہی چاہیے۔ شیری بیٹا کیسے ہیں آپ ؟“
”فائن آنٹی…آپ سنائیں۔ اچانک ہی آپ نے یہ پروگرام بنایا ہے ؟“وہ مسکراتا ہوا صباحت سے مخاطب ہوا۔
حالانکہ عادلہ اس کو ہر بات سے آگاہ کرتی رہی تھی ۔ اب بھی وہ بیٹھی پرشوق نظروں سے اس کو دیکھ رہی تھی ۔ اس کے لبوں پر خوب صورت مسکراہٹ تھی ۔ 
”فاخرہ کا ٹرانسفر اسلام آباد ہوگیا ہے اسی وجہ سے یہ سب کرنا پڑا ۔ ورنہ ہم تو بہت دھوم دھام سے یہ شادی کرتے ایسی سادگی کا تو تصور بھی نہیں تھا عابدی بھائی کہاں ہیں ؟“انہوں نے مسکراتے ہوئے بات پلٹی ۔ 
”عابدی کی طبیعت بہتر نہ تھی وہ اس وجہ سے نہیں آئے۔ پری کہاں ہے بھابی ان کو میں نے ابھی تک دیکھا ہی نہیں ہے “صباحت نے شدت سے محسوس کیا اماں کے استفسار پر شیری کی بے چین نگاہیں بھی ان پر مرکوز ہوگئی تھیں۔

   1
0 Comments